![](https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEj081pAupkRh3cm9MHRb_ZwYuvUMhIZX7t4Hq3zwdHUPcwt4pOUGoPWwwF8plGXTa1Ez3qeAIG_jL1doM0aKZV3qs3RWUsdGjIyzRnJrJkoEhJfeQg2XSdft8wILa2Cl378Sx24I0MrwA1-/s400/316219_243896485659609_162537057128886_631984_1182810693_n%255B1%255D.jpg)
alislam
Thursday, December 15, 2011
Thursday, November 10, 2011
عقیدہ ختم نبوت احادیث کی روشنی میں
عقیدہ ختم نبوت احادیث کی روشنی میں
جناب غلام مصطفی ظہیر امن پوری
ختم نبوت
عقیدہ ختم نبوت احادیث کی روشنی میں
متواتر احادیث سے ثابت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی اور رسول ہیں ۔ آپ کے بعد کوئی نبی پیدا نہیں ہو سکتا ، حافظ ابن کثیررحمہ اللہ لکھتے ہیں : وقد اخبر تعالیٰ فی کتابہ ورسولہ فی السنۃ المتواترۃ عنہ ” انہ لا نبی بعدہ لیعلموا ان کل من ادعی ھذا المقام بعدہ فھو کذاب افاک ، دجال ضال مضل “ ” یقینا اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب ( قرآن ) اور اس کے رسول نے سنت ( حدیث ) جو آپ سے متواتراً منقول ہے ۔ میں خبر دی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں ہے ، تا کہ لوگوں کو علم ہو جائے کہ ہر وہ شخص جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اس مقام ( نبوت ) کا دعویٰ کرے ، وہ جھوٹا ، مفتری ، دجال ، گمراہ اور گمراہ کرنے والا ہے ۔ “ ( تفسیر ابن کثیر : 188/5 تحت آیت سورۃ الاحزاب : 40 )
1 سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کانت بنو اسرائیل تسوسھم الانبیاءکلما ھلک بہ ، خلفہ نبی وانہ لانبی بعدی وسیکون خلفاءفیکثرون ” بنی اسرائیل کی سیاست انبیاءعلیہم السلام کرتے تھے ، جب کوئی نبی فوت ہوتا ، تو دوسرا نبی اس کا خلیفہ ( جانشین ) ہوتا مگر ( سن لو ) میرے بعد کوئی نبی نہیں ، البتہ خلیفے ضرور ہوں گے ، بکثرت ہوںگے ۔ “ ( صحیح بخاری ، 3456 ، صحیح مسلم : 1842 )
2 سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ان مثلی ومثل الانبیاءمن قبلی کمثل رجل بنٰی بیتا فاحسنہ واجملہ الا موضع لبنۃ من زاویۃ فجعل الناس یطوفون بہ ویعجبون لہ ویقولون : ھلا وضعت ھذہ اللبنۃ ؟ قال : فانا اللبنۃ وانا خاتم النبیین ” میری اور مجھ سے پہلے انبیاءکرام کی مثال ایسی ہے ، جیسے کسی نے حسین و جمیل گھر بنایا ، لیکن ایک کونے میں ایک اینٹ کی جگہ چھوڑ دی ، لوگ اس عمارت کے اردگرد گھومتے ہیں ، اور اس کی عمدگی پر اظہار حیرت کرتے ہیں مگر کہتے ہیں کہ اینٹ کی جگہ پر کیوں نہ کر دی گئی ؟ تو وہ اینٹ میں ہوں ، اور میں خاتم النبیین ہوں ۔ “ ( صحیح بخاری : 3535 ، صحیح مسلم : 22/228 )
3 سیدنا جابر بن عبداللہ انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : فانا موضع اللبنۃ ، جئت فختمت الانبیاءعلیہم السلام ” میں اس اینٹ کی جگہ ہوں ، پس میں آیا ، میں نے انبیاءعلیہم السلام کی آمد کے سلسلے کو ختم کر دیا ۔ “ ( صحیح مسلم : 2287 )
ایک روایت میں ہے : فانا موضع اللبنۃ ختم بی الانبیاء ” اس اینٹ کی جگہ میں فٹ ہو گیا ہوں ، انبیاءکی آمد مجھ پر ختم اور منقطع ہو گئی ہے ۔ “ ( مسند الطیالسی : 1894 ، وسندہ صحیح کالشمس وضوحا )
4 سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : فضلت عی الانبیاءبست ، اعطیت جوامع الکلم ، ونصرت بالرعب ، واحلت لی المغانم ، وجعلت لی الارض طھورا ومسجدا وارسلت الی الخلق کافۃ وختم بی النبیون ” مجھے چھ چیزوں میں انبیاءعلیہم السلام پر فضیلت دی گئی ہے ۔ مجھے جامع کلمات عطا کےے گئے ہیں ، رعب و دبدبہ کے ساتھ میری نصرت کی گئی ہے ، مال غنیمت میرے لیے ( بشمول امت ) حلال قرار دیا گیا ہے ۔ میرے لیے ( بشمول امت ) ساری کی ساری زمین مسجد اور پاکیزگی حاصل کرنے کا ذریعہ بنا دی گئی ہے ۔ میں پوری دنیا کے لئے رسول بنا کر بھیجا گیا ہوں ، مجھ پر نبیوں کا سلسلہ ختم کر دیا گیا ہے ۔ “ ( صحیح مسلم : 533 )
5 سیدنا جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : انا محمد ، وانا احمد ، وانا الماحی الذی یمحی بی الکفر ، وانا الحاشر الذی یحشر الناس علی عقبی ، وانا العاقب ، والعاقب الذی لیس بعدہ نبی ” میں محمد ہوں ، میں احمد ہوں ، میں ماحی ہوں کہ میرے ذریعہ سے کفر کو محو کیا جائے گا ، میں حاشر ہوں کہ میرے بعد حشر برپا ہوگا ۔ میں عاقب ہوں ، عاقب وہ ہے ، جس کے بعد کوئی نبی نہ ہو ۔ “ ( صحیح بخاری : 3532 ، صحیح مسلم :2354 واللفظ لہ )یہ حدیث اس بات پر دلیل ہے کہ آپ اللہ تعالیٰ کے آخری نبی ہیں ، آپ کے بعد قیامت قائم ہو جائے گی ، آپ کے اور قیامت کے درمیان کوئی نبی پیدا نہیں ہوگا ۔
6 سیدنا ثوبان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : انہ سیکون فی امتی کذابون ثلاثون کلھم یزعم انہ نبی اوانا خاتم النبیین لانبی بعدی ” میری امت میں تیس بڑے جھوٹے پیدا ہوں گے ، جن میں سے ہر ایک کا یہ دعویٰ ہو گا کہ وہ نبی ہے ۔ حالانکہ میں خاتم النبیین ہوں ، میرے بعد کوئی نبی نہیں ۔ “ ( ابوداود : 4252 ، ترمذی ، 2219 ، ابن ماجہ : 3952 ، مستدرک حاکم ، 450/4 ، وسندہ صحیح واصلہ فی مسلم : 192 ، 2889 دارالسلام )اس حدیث کو امام ترمذی رحمہ اللہ نے ” حسن صحیح “ اور امام حاکم نے بخاری و مسلم کی شرط پر صحیح کہا ہے ۔ حافظ ذہبی نے ان کی موافقت کی ہے ۔
7 سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ان الرسالۃ والنبوۃ قدانقطعت فلا رسول بعدی ولا نبی ” اس میں کوئی شک نہیں کہ رسالت و نبوت منقطع ہو چکی ہے ، میرے بعد اب نہ کوئی نبی ہے اور نہ رسول ۔ “ ( مسند الامام احمد : ج 3 ص267 ح13860 ، ترمذی : 2272 ، فضائل الطبرانی : ص 338 ، 339 ، حاکم : 391/4 ، ابن ابی شیبہ : 531/11 وسندہ صحیح )اس حدیث کو امام ترمذی نے ” حسن صحیح “ امام الضیاء ( 2645) نے ” صحیح “ کہا ہے ۔ امام حاکم نے اس کی سند کو بخاری و مسلم کی شرط پر ” صحیح “ کہا ہے ، حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے ان کی موافقت کی ہے ۔ یہ حدیث تنصیص و تصریح ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی پیدا نہیں ہو سکتا ۔
8 سیدنا ابوامامہ الباہلی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا : ایھا الناس انہ لا نبی بعدی ولا امۃ بعدکم ” اے لوگو ! میرے بعد کوئی نبی نہیں ، تمہارے بعد کوئی امت نہیں ۔ “ ( المعجم الکبیر للطبرانی : 115/8 ح 7535 ، السنۃ لابن ابی عاصم : 1095 وسندہ صحیح )
9 سیدنا ابوامامہ الباہلی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں دجال کے بارے میں خطبہ دیا : ایھا الناس ! انہ لم تکن فتنۃ علی الارض اعظم من فتنۃ الدجال وان اللہ لم یبعث نبیا الا حذرہ امتہ ، وانا آخر الانبیاء ، وانتم آخر الامم وھو خارج فیکم لا محالۃ فان یخرج وانا فیکم فانا حجیج کل مسلم ، وان یخرج بعدی ، فکل امری حجیج نفسہ ، واللہ خلیفتی علی کل مسلم ، وانہ یخرج من خلۃ بین الشام والعراق ، فیعیث یمینا ، ویمیث شمالا ، فیا عباداللہ ، اثبتوا ، فانہ یبدا فیقول : انا بنی ولا نبی بعدی ، ثم یثنی فیقول : انا ربکم ولن تروا ربکم حتی تموتوا ، وانہ اعور ، وان ربکم لیس باعور ، وانہ مکتوب بین عینیہ ” کافر “ یقروہ کل مؤمن ، فمن لقیہ منکم فلیتفل فی وجھہ.... ” اے لوگو ! روئے زمین پر فتنہ دجال سے بڑھ کر کوئی فتنہ نہیں ، ہر نبی نے اپنی امت کو اس فتنہ سے ڈرایا ہے ، میں آخری نبی ہوں ، اور تم آخری امت ہو ، وہ لامحالہ اس امت میں آنے والا ہے ، اگر وہ میری زندگی میں آجائے ، تو میں ہر مسلمان کی طرف سے اس کا حریف ہوں ، وہ اگر میرے بعد آئے تو ہر آدمی اپنے طور پر اس کا حریف ہے ، اللہ تعالیٰ میری طرف سے ہر مسلمان پر نگہبان ہے ، وہ شام اور عراق کے درمیان سے نکلے گا ، چار سو فساد برپا کرے گا ، اے اللہ کا بندو ! ثابت قدم رہنا وہ اس بات سے ابتداءکرے گا کہ میں نبی ہوں ، ( یاد رکھو ) میرے بعد کوئی نبی پیدا نہیں ہو سکتا ، دوسرے نمبر پر یہ بات کہے گا کہ میں تمہارا رب ہوں ، جبکہ تم مرنے سے پہلے اپنے رب کو نہ دیکھ سکو گے ، اس کی حالت یہ ہو گی کہ وہ کانا ہو گا ، جبکہ تمہارا رب کانا نہیں ، اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان ” کافر “ لکھا ہو گا ، جسے ہر مومن پڑھ لے گا ، آپ میں سے جو بھی اسے ملے ، اس کے منہ پر تھوک دے ۔ “ ( السنۃ لابن ابی عاصم : 4 وسندہ حسن ، عمرو بن عبداللہ الحضرمی وثقہ ابن حبان والعجیلی )
10 سیدنا عرباض بن ساریہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : انی عنداللہ مکتوب لخاتم النبیین وان آدم لمنجدل فی طینۃ ، وساخبرکم باول ذلک : دعوۃ ابی ابراھیم ، وبشارۃ عیسی بی ، والرویا التی رات امی وکذلک امھات النبیین یرین ، انھا رات حین وضعتنی انہ خرج منھا نور اضات منہ قصور الشام ” آدم علیہ السلام ابھی اپنی مٹی میں ہی تھے کہ مجھے اللہ کے ہاں آخری نبی لکھ دیا گیا تھا ، اور میں آپ کو اس کی تاویل و تعبیر بتاتا ہوں ، کہ میں ابراہیم علیہ السلام کی دعا ہوں ، عیسیٰ علیہ السلام کی بشارت ہوں ، اور اپنی ماں کا وہ خواب ہوں ، جو انہوں نے میری ولادت سے پہلے دیکھا تھا ، اور انبیاءکی مائیں اسی طرح کے خواب دیکھتی ہیں ، میری ماں نے میرے ایام ولادت کے دوران دیکھا کہ ان سے ایک روشنی نکلی ، جس سے شام کے محلات روشن ہوگئے ۔ “ ( مسند الامام احمد : 127/4 ، تفسیر طبری : 556/1 ، 87/28 واللفظہ لہ ، تفسیر ابن ابی حاتم : 1264 ، طبقات ابن سعد : 148/1 ، 149 ، تاریخ المدینۃ لعمر بن شبہ : 236/2 ، المعرفۃ والتاریخ لیعقوب بن سفیان : 345/2 ، المعجم الکبیر للطبرانی : 252/18 ، مسند الشامیین للطبرانی : 1939 ، مستدرک حاکم : 418/2 ، دلائل النبوۃ للبیہقی : 80/1 ، 389 ، 390 ، 13/2 ، وسندہ حسن اس حدیث کو امام ابن حبان رحمہ اللہ ( 2404 ) نے ” صحیح “ اور امام حاکم نے اس کی سند کو ” صحیح “ کہا ہے ، حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے بھی اس کو ” صحیح “ کہا ہے ۔ ! سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : فانی آخر الانبیاء ، وان مسجدی آخر المساجد ( صحیح مسلم : 507/1394 دارالسلام )” میں آخری نبی ہوں ، اور میری مسجد آخری مسجد ( نبوی ) ہے ۔ “
11 سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : خلف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم علی بن ابی طالب ، فی غزوۃ تبوک ، فقال : یا رسول اللہ تخلفنی فی النساءوالصبیان ؟ فقال : اما ترضی ان تکون منی بمنزلۃ ھارون من موسی ؟ غیر انہ لا نبی بعدی ” غزوہ تبوک کے موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے علی بن ابی طالب کو ( مدینہ ) میں اپنا جانشین مقرر فرمایا ، علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے عرض کیا ، اے اللہ کے رسول ! کیا آپ مجھے عورتوں اور بچوں میں پیچھے چھوڑ کر جا رہے ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کیا آپ اس بات پر راضی نہیں ہیں کہ میرے ساتھ آپ کی دینی نسبت ہو ، جو ہارون علیہ السلام کی موسیٰ علیہ السلام سے تھی ، البتہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا ۔ ( صحیح بخاری : 3706 ، صحیح مسلم : 2404 واللفظ لہ )
اسماءبنت عمیس رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں فرماتے ہوئے سنا : انت منی بمنزلۃ ھارون من موسی الا انہ لیس نبی بعدی ” آپ کی اور میری وہ نسبت ہے ، جو موسیٰ علیہ السلام اور ہارون علیہ السلام کی تھی ، مگر میرے بعد کوئی نبی نہیں ۔ “ ( مسند الامام احمد : 369/6 ، 437 ، السنن الکبریٰ للنسائی : 8143 ، مسند اسحاق : 2139 ، السنۃ لابن ابی عاصم : 1346 ، المعجم الکبیر للطبرانی : 146/24 ، مصنف ابن ابی شیبہ : 60/12 ، 61 وسندہ صحیح )
حافظ ہیثمی فرماتے ہیں : رواہ احمد والطبرانی ورجال احمد رجال الصحیح غیر فاطمۃ بنت علی وھی ثقۃ ( مجمع الزوائد : 109/9 )سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : لا یبقی بعدی من النبوۃ شیءالا المبشرات قالوا : یا رسول اللہ ، وما المبشرات ؟ قال الرویا الصالحہ یراھا الرجل او تری لہ ” میرے بعد مبشرات کے علاوہ نبوت میں سے کچھ باقی نہیں ، صحابہ کرام نے عرض کی ، اے اللہ کے رسول ! مبشرات ( خوشخبریاں) کیا ہیں ؟ فرمایا نیک خواب ، جو آدمی دیکھتا ہے ، یا اسے دکھایا جاتا ہے ۔ “ ( زوائد مسند الامام احمد : 129/6 ، البزار ( کشف الاستار : 2118 ) وسندہ حسن )
سعید بن عبدالرحمن العجمی صدوق حسن الحدیث ہے ، المؤتلف للدارقطنی : 177/1 وسندہ حسن سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : لم یبق من النبوۃ الا المبشرات ، قالوا : وما المبشرات ؟ قال : الرویا الصالحۃ ” نبوت میں سے مبشرات کے علاوہ کچھ باقی نہیں ، صحابہ نے عرض کی مبشرات کیا ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نیک خواب ۔ “ ( صحیح بخاری : 699 )
سیدنا حذیفہ بن اسید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ؟ : ذھبت النبوۃ فلا نبوۃ بعدی الا المبشرات قیل : وما المبشرات ؟ قال الرویا الصالحۃ یراھا الرجل او تری لہ ” نبوت ختم ہو گئی ہے ، میرے بعد کوئی نبوت نہیں ، سوائے مبشرات کے ، کہا گیا مبشرات کیا ہیں ؟ فرمایا نیک خواب جو آدمی دیکھتا ہے ، یا اسے دکھایا جاتا ہے ۔ “ ( البزار ( کشف الاستار : 2121 ، المعجم الکبیر للطبرانی : 3051 وسندہ صحیح )
حافظ ہیثمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : رواہ الطبرانی والبزار ورجال الطبرانی ثقات ( مجمع الزوائد : 173/7 )شیخ المعلمی رحمہ اللہ لکھتے ہیں : اتفق اھل العلم علی ان الرویا لا تصلح للحجۃ وانما ھی تبشیر وتنبیہ ، وتصلح للاستئناس بھا اذا وافقت حجۃ شرعیۃ صحیحۃ اہل علم اس بات پر متفق اللسان ہیں کہ ( امتی ) کا خواب حجت ( شرعی ) کی صلاحیت نہیں رکھتا ، وہ محض بشارت اور تنبیہ کا کام دیتا ہے ، البتہ جب صحیح شرعی حجت کے مطابق و موافق ہو ، تو مانوسیت و طمانیت کا فائدہ دیتا ہے ۔ ( التنکیل : 242/2 للشیخ عبدالرحمن المعلمی )
سیدنا ابن عباسw کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ایھا الناس ! وانہ لم یبق من مبشرات النبوۃ الا الرویا الصالحہ یراھا المسلم ، او تری لہ ” اے لوگو ! مبشراتِ نبوت میں سے صرف نیک خواب باقی رہ گئے ہیں ، جو ایک مسلمان آدمی وہ خواب دیکھتا ہے ، یا اسے دکھائے جاتے ہیں ۔ “ ( صحیح مسلم : 479 )
* سیدہ ام کرز رضی اللہ عنہا سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ذھبت النبوۃ وبقیت المبشرات ” نبوت ختم ہو گئی ہے ، مبشرات باقی ہیں ۔ “ ( مسند احمد : 381/6 ، مسند حمیدی : 348 ، ابن ماجہ : 3896 وسندہ حسن )اس حدیث کو امام ابن حبان ( 6047 ) نے ” صحیح “ کہا ہے ، ابویزید المکی حسن الحدیث ہے ، امام ابن حبان رحمہ اللہ اور امام عجلی نے اس کی توثیق کر رکھی ہے ۔
( سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نمازِ فجر کے بعد فرمایا کرتے تھے ، کیا آپ میں سے کسی نے آج رات کوئی خواب دیکھا ہے ؟ اور فرمایا کرتے تھے : انہ لا یبقی بعدی من النبوۃ الا الرویا الصالحۃ ” یقینا میرے بعد نبوت میں سے کچھ باقی نہیں ( یعنی نبوت کا سلسلہ منقطع ہو گیا ہے ) البتہ نیک خواب باقی ہیں ۔ “ ( موطا امام مالک : 956/2 ، مسند احمد : 325/2 ، ابوداؤد : 5017 ، مستدرک حاکم : 390/4 ، وسندہ صحیح )اس حدیث کو امام ابن حبان ( 6048 ) اور امام حاکم نے ” صحیح “ کہا ہے ، حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے ان کی موافقت کی ہے ۔ ان احادیث سے ثابت ہوا کہ نبوت کا سلسلہ ختم ہو گیا ہے ، مبشرات یعنی مسلمان آدمی کے نیک خواب جو اجزائے نبوت میں سے ہیں ، باقی رہیں گے ۔
سیدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا : لو کان نبی بعدی لکان عمر بن الخطاب ” اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا ، تو عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ ہوتے ۔ “ ( ترمذی : 3886 ، مسند الامام احمد : 154/4 ، المعجم الکبیر للطبرانی : 180/17 ، 298 ، مستدرک حاکم : 85/3 ح 4495 ، وسندہ حسن )اس حدیث کو امام ترمذی رحمہ اللہ نے ” حسن غریب “ ، امام حاکم نے ” صحیح الاسناد “ اور حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے ” صحیح “ کہا ہے ۔ اس حدیث سے ثابت ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی تشریعی یا غیر تشریعی نہیں آئے گا ، اگر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نبی نہ ہوئے ، تو اور کون ہو سکتا ہے ؟
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : لقد کان فیمن کان قبلکم من بنی اسرائیل رجال یکلمون من غیر ان یکونوا انبیاء ، فان یکن فی امتی منھم احد فعمر ” آپ سے پہلے جو بنی اسرائیل گزرے ہیں ، ان میں ایسے لوگ بھی تھے ، جن سے کلام کی جاتی تھی ، جبکہ وہ نبی نہیں تھے ، اگر میری امت سے کوئی ہوا ، تو عمر ہوں گے ۔ “ ( صحیح البخاری : 3689 )
ایک روایت کے یہ الفاظ ہیں : لقد کان فیما قبلکم من الامم محدثون ، فان یکن فی امتی احد ، فانہ عمر ” پہلی امتوں میں ” محدث “ گزرے ہیں ، اگر میری امت میں کوئی ہوا ، تو عمر رضی اللہ عنہ ہوں گے ۔ “ ( صحیح بخاری : 3689 ورواہ مسلم : 2398 وغیرہ من حدیث عائشہ )
سیدہ عائشہ کی ایک روایت کے الفاظ ہیں : ما کان من نبی الا مرفی امتہ معلم او معلمان ، فان یکن فی امتی احد منھم فعمر بن الخطاب کوئی نبی ایسے نہیں گزرے ، جن کی امت میں ایک دو معلم نہ ہوئے ہوں ، اگر میری امت میں کوئی ہوا ، تو عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ ہوں گے ۔ “ ( السنۃ ابن ابی عاصم : 1298 وسندہ حسن ) اس کے راوی عبدالرحمن بن ابی الزناد موثق حسن الحدیث ہیں ، حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں : وھو ثقۃ عند الجمہور وتکلم فیہ بعضھم بما لا یقدح فیہ ” یہ جمہور کے نزدیک ثقہ ہیں ، بعض نے ان میں کلام کی ہے ، جو موجب قدح نہیں ۔ “ ( نتائج الافکار لابن حجر : 304 )یاد رہے کہ ” محدث “ ، ” مکلم “ اور ” معلم “ کا ایک ہی مطلب ہے ، اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اگر کوئی محدث و مکلم ار معلم اس امت میں ہوا ، تو عمر بن خطاب ہوں گے ، اس کا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اگر عمر نہ ہوئے تو کوئی بھی نہ ہو گا ۔ یعنی نبی تو درکنار محدث و مکلم اور ملہم بھی نہ ہوگا ۔
اسماعیل بن عبدالرحمن السدی ( حسن الحدیث ) کہتے ہیں : سالت انس بن مالک قلت : صلی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم علی ابنہ ابراھیم ؟ قال : لا ادری ، رحمۃ اللہ علی ابراھیم لو عاش کان صدیقا نبیا ” میں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بیٹے ابراہیم پر نماز جنازہ پڑھی تھی ؟ تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا ، میں نہیں جانتا ( پڑھی تھی یا نہیں پڑھی تھی ) ابراہیم پر اللہ کی رحمت ہو اگر وہ زندہ ہوتے تو سچے نبی ہوتے ۔ “ ( مسند الامام احمد : 280/3 ، 281 ، طبقات ابن سعد ، 140/1 وسندہ حسن )
اسماعیل کہتے ہیں کہ میں نے ابن ابی اوفی سے کہا : رایت ابراھیم ابن النبی صلی اللہ علیہ وسلم ؟ قال : مات صغیرا ، ولو قضی ان یکون بعد محمد صلی اللہ علیہ وسلم نبی عاش ابنہ ، ولکن لانبی بعدہ ” کیا آپ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بیٹے ابراہیم کو دیکھا ہے ؟ فرمایا وہ بچپن میں ہی فوت ہوگئے ، اگر اللہ تعالیٰ کا فیصلہ ہوتا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی ہو سکتا ہے ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صاحبزادے زندہ رہتے ، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں آسکتا ۔ “ ( صحیح بخاری : 6194 ، ابن ماجہ : 1510 ، المعجم الاوسط للطبرانی : 6638 ، تاریخ ابن عساکر : 135/3 )ان احادیث سے معلوم ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی پیدا نہیں ہو سکتا ، اس لئے آپ کا بیٹا ابراھیم زندہ نہ رہا ۔
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ لوگ روزِ قیامت شفاعت کبریٰ کے لئے جہاں دیگر انبیاءعلیہم السلام کے پاس جائیں گے ، وہاں عیسیٰ علیہ السلام کے پاس بھی جائیں گے اور کہیں گے ، ” اے عیسیٰ ( علیہ السلام ) اپنے رب کے ہاں ہمارے فیصلے کی سفارش کیجئے ، وہ فرمائیں گے کہ اس وقت میں آپ کے کام نہیں آ سکتا ، ” ولکن ائتوا محمداً صلی اللہ علیہ وسلم فانہ خاتم النبیین “ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جائیں ، وہ آخری نبی ہیں ۔ “ وہ آج موجود ہیں ، ان کے پہلے اور بعد کے گناہ معاف کر دئیے گئے ہیں ، عیسیٰ علیہ السلام فرمائیں گے ، بھلا آپ مجھے یہ بتائیں کہ اگر کسی برتن میں سامان رکھ کر مہر لگا دی گئی ہو ، کیا وہ مہر توڑے بغیر اس سامان تک رسائی ممکن ہے ؟ لوگ کہیں گے ، نہیں ، تو عیسیٰ علیہ السلام فرمائیں گے : ” فان محمدا صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبیین “ ” یقینا محمد صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی ہیں ۔ “ ( مسند الامام احمد : 248/3 وسندہ صحیح )سیدنا عیسیٰ علیہ السلام نے بڑی پیاری مثال دے کر بات سمجھائی ہے کہ جس طرح مہر توڑے بغیر سامان کا حصول ناممکن ہے ، اسی طرح کام کے لئے مہر والی ہستی کے پاس جانا ہوگا ۔ جو آخری نبی ہیں ۔ لوگ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کے کہنے کے مطابق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جا کر کہیں گے : یا محمد ، انت رسول اللہ وخاتم الانبیاء ” اے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ! آپ اللہ کے رسول اور آخری نبی ہیں ۔ “ ( صحیح بخاری : 7412 ، صحیح مسلم : 194 )
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد جو بھی مدعی نبوت ہو گا ، وہ مفتری اور دجال و کذاب ہوگا ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان گرامی ہے : ان بین یدی الساعۃ ثلاثین کذابا دجالا کلھم یزعم انہ نبی ” قیامت سے پہلے تیس کذاب دجال پیدا ہوں گے ، وہ سارے کے سارے نبوت کے دعویدار ہوں گے ۔ “ ( دلائل النبوۃ للبیہقی : 480/6 وسندہ حسن )نیز فرمایا : لا تقوم الساعۃ حتی یخرج ثلاثون کتابا دجالا کلھم یکذب علی اللہ وعلی رسولہ ” قیامت قائم نہیں ہو گی ، جب تک ( نامور ) تیس کذاب دجال پیدا نہیں ہوں گے ، وہ سارے کے سارے اللہ اور اس کے رسول پر جھوٹ باندھتے ہوں گے ۔ “ ( ابوداود : 4334 وسندہ حسن )
سیدنا عوف بن مالک اشجعی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ابیتم فو اللہ انی لانا الحاشر ، وانا العاقب وانا النبی المصطفی آمنتم او کذبتم ” ( اے یہودیو ! تم نے لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ ) کا انکار کیا ہے ، اللہ کی قسم ! میں حاشر ہوں ( یعنی میرے بعد حشر برپا ہو گا ) میں عاقب ہوں ( یعنی میرے بعد کوئی نبی نہیں آ سکتا ) میں نبی مصطفی ہوں خواہ تم ( مجھ پر ) ایمان لے آؤ یا ( میری ) تکذیب کر دو ۔ “ ( آپ ایمان لائیں یا نہ لائیں ہر صورت میں اللہ کا آخری نبی ہوں ) ( مسند الامام احمد : ج 6 ص 25 ح 24484 وسندہ حسن )
سیدنا سمرۃ بن جندب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : وانہ واللہ لا تقوم الساعۃ حتی یخرج ثلاثون کذابا آخرھم الاعور الدجال ” اللہ کی قسم ! اس وقت تک قیامت برپا نہیں ہو گی ، جب تک تیس ( نامور ) جھوٹے ( نبی ) پیدا نہیں ہوں گے ۔ ان میں آخری کانا دجال ہوگا ۔ “ ( مسند الامام احمد : 16/5 ، طبرانی : 6796 ، 7798 ، 6799 ، مستدرک حاکم : 329/1 ، 330وسندہ حسن ) س حدیث کو امام ابن خزیمہ ( 1397 ) امام ابن حبان ( 2856 ) نے ” صحیح “ اور امام حاکم نے بخاری و مسلم کی شرط پر ” صحیح “ کہا ہے ، حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے ان کی موافقت کی ہے ۔ اس حدیث کو ابوداود ( 1184 ) نسائی ( 1484 ) اور ترمذی ( 562 ) نے مختصرا اسی سند سے روایت کیا ہے ، امام ترمذی رحمہ اللہ نے اس کو ” حسن صحیح “ قرار دیا ہے ۔ اس کا راوی ثعلبہ بن عباد ” حسن الحدیث “ ہے ، امام ابن خزیمہ ، امام ابن حبان ، امام ترمذی اور امام حاکم نے اس کی حدیث کی ” تصحیح “ کر کے اس کی توثیق کی ہے ، لہٰذا ان کو ” مجہول “ کہنے والوں کا قول مردود ہے ۔ فافھم
جناب غلام مصطفی ظہیر امن پوری
ختم نبوت
عقیدہ ختم نبوت احادیث کی روشنی میں
متواتر احادیث سے ثابت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی اور رسول ہیں ۔ آپ کے بعد کوئی نبی پیدا نہیں ہو سکتا ، حافظ ابن کثیررحمہ اللہ لکھتے ہیں : وقد اخبر تعالیٰ فی کتابہ ورسولہ فی السنۃ المتواترۃ عنہ ” انہ لا نبی بعدہ لیعلموا ان کل من ادعی ھذا المقام بعدہ فھو کذاب افاک ، دجال ضال مضل “ ” یقینا اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب ( قرآن ) اور اس کے رسول نے سنت ( حدیث ) جو آپ سے متواتراً منقول ہے ۔ میں خبر دی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں ہے ، تا کہ لوگوں کو علم ہو جائے کہ ہر وہ شخص جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اس مقام ( نبوت ) کا دعویٰ کرے ، وہ جھوٹا ، مفتری ، دجال ، گمراہ اور گمراہ کرنے والا ہے ۔ “ ( تفسیر ابن کثیر : 188/5 تحت آیت سورۃ الاحزاب : 40 )
1 سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کانت بنو اسرائیل تسوسھم الانبیاءکلما ھلک بہ ، خلفہ نبی وانہ لانبی بعدی وسیکون خلفاءفیکثرون ” بنی اسرائیل کی سیاست انبیاءعلیہم السلام کرتے تھے ، جب کوئی نبی فوت ہوتا ، تو دوسرا نبی اس کا خلیفہ ( جانشین ) ہوتا مگر ( سن لو ) میرے بعد کوئی نبی نہیں ، البتہ خلیفے ضرور ہوں گے ، بکثرت ہوںگے ۔ “ ( صحیح بخاری ، 3456 ، صحیح مسلم : 1842 )
2 سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ان مثلی ومثل الانبیاءمن قبلی کمثل رجل بنٰی بیتا فاحسنہ واجملہ الا موضع لبنۃ من زاویۃ فجعل الناس یطوفون بہ ویعجبون لہ ویقولون : ھلا وضعت ھذہ اللبنۃ ؟ قال : فانا اللبنۃ وانا خاتم النبیین ” میری اور مجھ سے پہلے انبیاءکرام کی مثال ایسی ہے ، جیسے کسی نے حسین و جمیل گھر بنایا ، لیکن ایک کونے میں ایک اینٹ کی جگہ چھوڑ دی ، لوگ اس عمارت کے اردگرد گھومتے ہیں ، اور اس کی عمدگی پر اظہار حیرت کرتے ہیں مگر کہتے ہیں کہ اینٹ کی جگہ پر کیوں نہ کر دی گئی ؟ تو وہ اینٹ میں ہوں ، اور میں خاتم النبیین ہوں ۔ “ ( صحیح بخاری : 3535 ، صحیح مسلم : 22/228 )
3 سیدنا جابر بن عبداللہ انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : فانا موضع اللبنۃ ، جئت فختمت الانبیاءعلیہم السلام ” میں اس اینٹ کی جگہ ہوں ، پس میں آیا ، میں نے انبیاءعلیہم السلام کی آمد کے سلسلے کو ختم کر دیا ۔ “ ( صحیح مسلم : 2287 )
ایک روایت میں ہے : فانا موضع اللبنۃ ختم بی الانبیاء ” اس اینٹ کی جگہ میں فٹ ہو گیا ہوں ، انبیاءکی آمد مجھ پر ختم اور منقطع ہو گئی ہے ۔ “ ( مسند الطیالسی : 1894 ، وسندہ صحیح کالشمس وضوحا )
4 سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : فضلت عی الانبیاءبست ، اعطیت جوامع الکلم ، ونصرت بالرعب ، واحلت لی المغانم ، وجعلت لی الارض طھورا ومسجدا وارسلت الی الخلق کافۃ وختم بی النبیون ” مجھے چھ چیزوں میں انبیاءعلیہم السلام پر فضیلت دی گئی ہے ۔ مجھے جامع کلمات عطا کےے گئے ہیں ، رعب و دبدبہ کے ساتھ میری نصرت کی گئی ہے ، مال غنیمت میرے لیے ( بشمول امت ) حلال قرار دیا گیا ہے ۔ میرے لیے ( بشمول امت ) ساری کی ساری زمین مسجد اور پاکیزگی حاصل کرنے کا ذریعہ بنا دی گئی ہے ۔ میں پوری دنیا کے لئے رسول بنا کر بھیجا گیا ہوں ، مجھ پر نبیوں کا سلسلہ ختم کر دیا گیا ہے ۔ “ ( صحیح مسلم : 533 )
5 سیدنا جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : انا محمد ، وانا احمد ، وانا الماحی الذی یمحی بی الکفر ، وانا الحاشر الذی یحشر الناس علی عقبی ، وانا العاقب ، والعاقب الذی لیس بعدہ نبی ” میں محمد ہوں ، میں احمد ہوں ، میں ماحی ہوں کہ میرے ذریعہ سے کفر کو محو کیا جائے گا ، میں حاشر ہوں کہ میرے بعد حشر برپا ہوگا ۔ میں عاقب ہوں ، عاقب وہ ہے ، جس کے بعد کوئی نبی نہ ہو ۔ “ ( صحیح بخاری : 3532 ، صحیح مسلم :2354 واللفظ لہ )یہ حدیث اس بات پر دلیل ہے کہ آپ اللہ تعالیٰ کے آخری نبی ہیں ، آپ کے بعد قیامت قائم ہو جائے گی ، آپ کے اور قیامت کے درمیان کوئی نبی پیدا نہیں ہوگا ۔
6 سیدنا ثوبان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : انہ سیکون فی امتی کذابون ثلاثون کلھم یزعم انہ نبی اوانا خاتم النبیین لانبی بعدی ” میری امت میں تیس بڑے جھوٹے پیدا ہوں گے ، جن میں سے ہر ایک کا یہ دعویٰ ہو گا کہ وہ نبی ہے ۔ حالانکہ میں خاتم النبیین ہوں ، میرے بعد کوئی نبی نہیں ۔ “ ( ابوداود : 4252 ، ترمذی ، 2219 ، ابن ماجہ : 3952 ، مستدرک حاکم ، 450/4 ، وسندہ صحیح واصلہ فی مسلم : 192 ، 2889 دارالسلام )اس حدیث کو امام ترمذی رحمہ اللہ نے ” حسن صحیح “ اور امام حاکم نے بخاری و مسلم کی شرط پر صحیح کہا ہے ۔ حافظ ذہبی نے ان کی موافقت کی ہے ۔
7 سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ان الرسالۃ والنبوۃ قدانقطعت فلا رسول بعدی ولا نبی ” اس میں کوئی شک نہیں کہ رسالت و نبوت منقطع ہو چکی ہے ، میرے بعد اب نہ کوئی نبی ہے اور نہ رسول ۔ “ ( مسند الامام احمد : ج 3 ص267 ح13860 ، ترمذی : 2272 ، فضائل الطبرانی : ص 338 ، 339 ، حاکم : 391/4 ، ابن ابی شیبہ : 531/11 وسندہ صحیح )اس حدیث کو امام ترمذی نے ” حسن صحیح “ امام الضیاء ( 2645) نے ” صحیح “ کہا ہے ۔ امام حاکم نے اس کی سند کو بخاری و مسلم کی شرط پر ” صحیح “ کہا ہے ، حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے ان کی موافقت کی ہے ۔ یہ حدیث تنصیص و تصریح ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی پیدا نہیں ہو سکتا ۔
8 سیدنا ابوامامہ الباہلی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا : ایھا الناس انہ لا نبی بعدی ولا امۃ بعدکم ” اے لوگو ! میرے بعد کوئی نبی نہیں ، تمہارے بعد کوئی امت نہیں ۔ “ ( المعجم الکبیر للطبرانی : 115/8 ح 7535 ، السنۃ لابن ابی عاصم : 1095 وسندہ صحیح )
9 سیدنا ابوامامہ الباہلی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں دجال کے بارے میں خطبہ دیا : ایھا الناس ! انہ لم تکن فتنۃ علی الارض اعظم من فتنۃ الدجال وان اللہ لم یبعث نبیا الا حذرہ امتہ ، وانا آخر الانبیاء ، وانتم آخر الامم وھو خارج فیکم لا محالۃ فان یخرج وانا فیکم فانا حجیج کل مسلم ، وان یخرج بعدی ، فکل امری حجیج نفسہ ، واللہ خلیفتی علی کل مسلم ، وانہ یخرج من خلۃ بین الشام والعراق ، فیعیث یمینا ، ویمیث شمالا ، فیا عباداللہ ، اثبتوا ، فانہ یبدا فیقول : انا بنی ولا نبی بعدی ، ثم یثنی فیقول : انا ربکم ولن تروا ربکم حتی تموتوا ، وانہ اعور ، وان ربکم لیس باعور ، وانہ مکتوب بین عینیہ ” کافر “ یقروہ کل مؤمن ، فمن لقیہ منکم فلیتفل فی وجھہ.... ” اے لوگو ! روئے زمین پر فتنہ دجال سے بڑھ کر کوئی فتنہ نہیں ، ہر نبی نے اپنی امت کو اس فتنہ سے ڈرایا ہے ، میں آخری نبی ہوں ، اور تم آخری امت ہو ، وہ لامحالہ اس امت میں آنے والا ہے ، اگر وہ میری زندگی میں آجائے ، تو میں ہر مسلمان کی طرف سے اس کا حریف ہوں ، وہ اگر میرے بعد آئے تو ہر آدمی اپنے طور پر اس کا حریف ہے ، اللہ تعالیٰ میری طرف سے ہر مسلمان پر نگہبان ہے ، وہ شام اور عراق کے درمیان سے نکلے گا ، چار سو فساد برپا کرے گا ، اے اللہ کا بندو ! ثابت قدم رہنا وہ اس بات سے ابتداءکرے گا کہ میں نبی ہوں ، ( یاد رکھو ) میرے بعد کوئی نبی پیدا نہیں ہو سکتا ، دوسرے نمبر پر یہ بات کہے گا کہ میں تمہارا رب ہوں ، جبکہ تم مرنے سے پہلے اپنے رب کو نہ دیکھ سکو گے ، اس کی حالت یہ ہو گی کہ وہ کانا ہو گا ، جبکہ تمہارا رب کانا نہیں ، اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان ” کافر “ لکھا ہو گا ، جسے ہر مومن پڑھ لے گا ، آپ میں سے جو بھی اسے ملے ، اس کے منہ پر تھوک دے ۔ “ ( السنۃ لابن ابی عاصم : 4 وسندہ حسن ، عمرو بن عبداللہ الحضرمی وثقہ ابن حبان والعجیلی )
10 سیدنا عرباض بن ساریہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : انی عنداللہ مکتوب لخاتم النبیین وان آدم لمنجدل فی طینۃ ، وساخبرکم باول ذلک : دعوۃ ابی ابراھیم ، وبشارۃ عیسی بی ، والرویا التی رات امی وکذلک امھات النبیین یرین ، انھا رات حین وضعتنی انہ خرج منھا نور اضات منہ قصور الشام ” آدم علیہ السلام ابھی اپنی مٹی میں ہی تھے کہ مجھے اللہ کے ہاں آخری نبی لکھ دیا گیا تھا ، اور میں آپ کو اس کی تاویل و تعبیر بتاتا ہوں ، کہ میں ابراہیم علیہ السلام کی دعا ہوں ، عیسیٰ علیہ السلام کی بشارت ہوں ، اور اپنی ماں کا وہ خواب ہوں ، جو انہوں نے میری ولادت سے پہلے دیکھا تھا ، اور انبیاءکی مائیں اسی طرح کے خواب دیکھتی ہیں ، میری ماں نے میرے ایام ولادت کے دوران دیکھا کہ ان سے ایک روشنی نکلی ، جس سے شام کے محلات روشن ہوگئے ۔ “ ( مسند الامام احمد : 127/4 ، تفسیر طبری : 556/1 ، 87/28 واللفظہ لہ ، تفسیر ابن ابی حاتم : 1264 ، طبقات ابن سعد : 148/1 ، 149 ، تاریخ المدینۃ لعمر بن شبہ : 236/2 ، المعرفۃ والتاریخ لیعقوب بن سفیان : 345/2 ، المعجم الکبیر للطبرانی : 252/18 ، مسند الشامیین للطبرانی : 1939 ، مستدرک حاکم : 418/2 ، دلائل النبوۃ للبیہقی : 80/1 ، 389 ، 390 ، 13/2 ، وسندہ حسن اس حدیث کو امام ابن حبان رحمہ اللہ ( 2404 ) نے ” صحیح “ اور امام حاکم نے اس کی سند کو ” صحیح “ کہا ہے ، حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے بھی اس کو ” صحیح “ کہا ہے ۔ ! سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : فانی آخر الانبیاء ، وان مسجدی آخر المساجد ( صحیح مسلم : 507/1394 دارالسلام )” میں آخری نبی ہوں ، اور میری مسجد آخری مسجد ( نبوی ) ہے ۔ “
11 سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : خلف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم علی بن ابی طالب ، فی غزوۃ تبوک ، فقال : یا رسول اللہ تخلفنی فی النساءوالصبیان ؟ فقال : اما ترضی ان تکون منی بمنزلۃ ھارون من موسی ؟ غیر انہ لا نبی بعدی ” غزوہ تبوک کے موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے علی بن ابی طالب کو ( مدینہ ) میں اپنا جانشین مقرر فرمایا ، علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے عرض کیا ، اے اللہ کے رسول ! کیا آپ مجھے عورتوں اور بچوں میں پیچھے چھوڑ کر جا رہے ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کیا آپ اس بات پر راضی نہیں ہیں کہ میرے ساتھ آپ کی دینی نسبت ہو ، جو ہارون علیہ السلام کی موسیٰ علیہ السلام سے تھی ، البتہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا ۔ ( صحیح بخاری : 3706 ، صحیح مسلم : 2404 واللفظ لہ )
اسماءبنت عمیس رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں فرماتے ہوئے سنا : انت منی بمنزلۃ ھارون من موسی الا انہ لیس نبی بعدی ” آپ کی اور میری وہ نسبت ہے ، جو موسیٰ علیہ السلام اور ہارون علیہ السلام کی تھی ، مگر میرے بعد کوئی نبی نہیں ۔ “ ( مسند الامام احمد : 369/6 ، 437 ، السنن الکبریٰ للنسائی : 8143 ، مسند اسحاق : 2139 ، السنۃ لابن ابی عاصم : 1346 ، المعجم الکبیر للطبرانی : 146/24 ، مصنف ابن ابی شیبہ : 60/12 ، 61 وسندہ صحیح )
حافظ ہیثمی فرماتے ہیں : رواہ احمد والطبرانی ورجال احمد رجال الصحیح غیر فاطمۃ بنت علی وھی ثقۃ ( مجمع الزوائد : 109/9 )سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : لا یبقی بعدی من النبوۃ شیءالا المبشرات قالوا : یا رسول اللہ ، وما المبشرات ؟ قال الرویا الصالحہ یراھا الرجل او تری لہ ” میرے بعد مبشرات کے علاوہ نبوت میں سے کچھ باقی نہیں ، صحابہ کرام نے عرض کی ، اے اللہ کے رسول ! مبشرات ( خوشخبریاں) کیا ہیں ؟ فرمایا نیک خواب ، جو آدمی دیکھتا ہے ، یا اسے دکھایا جاتا ہے ۔ “ ( زوائد مسند الامام احمد : 129/6 ، البزار ( کشف الاستار : 2118 ) وسندہ حسن )
سعید بن عبدالرحمن العجمی صدوق حسن الحدیث ہے ، المؤتلف للدارقطنی : 177/1 وسندہ حسن سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : لم یبق من النبوۃ الا المبشرات ، قالوا : وما المبشرات ؟ قال : الرویا الصالحۃ ” نبوت میں سے مبشرات کے علاوہ کچھ باقی نہیں ، صحابہ نے عرض کی مبشرات کیا ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نیک خواب ۔ “ ( صحیح بخاری : 699 )
سیدنا حذیفہ بن اسید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ؟ : ذھبت النبوۃ فلا نبوۃ بعدی الا المبشرات قیل : وما المبشرات ؟ قال الرویا الصالحۃ یراھا الرجل او تری لہ ” نبوت ختم ہو گئی ہے ، میرے بعد کوئی نبوت نہیں ، سوائے مبشرات کے ، کہا گیا مبشرات کیا ہیں ؟ فرمایا نیک خواب جو آدمی دیکھتا ہے ، یا اسے دکھایا جاتا ہے ۔ “ ( البزار ( کشف الاستار : 2121 ، المعجم الکبیر للطبرانی : 3051 وسندہ صحیح )
حافظ ہیثمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : رواہ الطبرانی والبزار ورجال الطبرانی ثقات ( مجمع الزوائد : 173/7 )شیخ المعلمی رحمہ اللہ لکھتے ہیں : اتفق اھل العلم علی ان الرویا لا تصلح للحجۃ وانما ھی تبشیر وتنبیہ ، وتصلح للاستئناس بھا اذا وافقت حجۃ شرعیۃ صحیحۃ اہل علم اس بات پر متفق اللسان ہیں کہ ( امتی ) کا خواب حجت ( شرعی ) کی صلاحیت نہیں رکھتا ، وہ محض بشارت اور تنبیہ کا کام دیتا ہے ، البتہ جب صحیح شرعی حجت کے مطابق و موافق ہو ، تو مانوسیت و طمانیت کا فائدہ دیتا ہے ۔ ( التنکیل : 242/2 للشیخ عبدالرحمن المعلمی )
سیدنا ابن عباسw کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ایھا الناس ! وانہ لم یبق من مبشرات النبوۃ الا الرویا الصالحہ یراھا المسلم ، او تری لہ ” اے لوگو ! مبشراتِ نبوت میں سے صرف نیک خواب باقی رہ گئے ہیں ، جو ایک مسلمان آدمی وہ خواب دیکھتا ہے ، یا اسے دکھائے جاتے ہیں ۔ “ ( صحیح مسلم : 479 )
* سیدہ ام کرز رضی اللہ عنہا سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ذھبت النبوۃ وبقیت المبشرات ” نبوت ختم ہو گئی ہے ، مبشرات باقی ہیں ۔ “ ( مسند احمد : 381/6 ، مسند حمیدی : 348 ، ابن ماجہ : 3896 وسندہ حسن )اس حدیث کو امام ابن حبان ( 6047 ) نے ” صحیح “ کہا ہے ، ابویزید المکی حسن الحدیث ہے ، امام ابن حبان رحمہ اللہ اور امام عجلی نے اس کی توثیق کر رکھی ہے ۔
( سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نمازِ فجر کے بعد فرمایا کرتے تھے ، کیا آپ میں سے کسی نے آج رات کوئی خواب دیکھا ہے ؟ اور فرمایا کرتے تھے : انہ لا یبقی بعدی من النبوۃ الا الرویا الصالحۃ ” یقینا میرے بعد نبوت میں سے کچھ باقی نہیں ( یعنی نبوت کا سلسلہ منقطع ہو گیا ہے ) البتہ نیک خواب باقی ہیں ۔ “ ( موطا امام مالک : 956/2 ، مسند احمد : 325/2 ، ابوداؤد : 5017 ، مستدرک حاکم : 390/4 ، وسندہ صحیح )اس حدیث کو امام ابن حبان ( 6048 ) اور امام حاکم نے ” صحیح “ کہا ہے ، حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے ان کی موافقت کی ہے ۔ ان احادیث سے ثابت ہوا کہ نبوت کا سلسلہ ختم ہو گیا ہے ، مبشرات یعنی مسلمان آدمی کے نیک خواب جو اجزائے نبوت میں سے ہیں ، باقی رہیں گے ۔
سیدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا : لو کان نبی بعدی لکان عمر بن الخطاب ” اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا ، تو عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ ہوتے ۔ “ ( ترمذی : 3886 ، مسند الامام احمد : 154/4 ، المعجم الکبیر للطبرانی : 180/17 ، 298 ، مستدرک حاکم : 85/3 ح 4495 ، وسندہ حسن )اس حدیث کو امام ترمذی رحمہ اللہ نے ” حسن غریب “ ، امام حاکم نے ” صحیح الاسناد “ اور حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے ” صحیح “ کہا ہے ۔ اس حدیث سے ثابت ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی تشریعی یا غیر تشریعی نہیں آئے گا ، اگر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نبی نہ ہوئے ، تو اور کون ہو سکتا ہے ؟
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : لقد کان فیمن کان قبلکم من بنی اسرائیل رجال یکلمون من غیر ان یکونوا انبیاء ، فان یکن فی امتی منھم احد فعمر ” آپ سے پہلے جو بنی اسرائیل گزرے ہیں ، ان میں ایسے لوگ بھی تھے ، جن سے کلام کی جاتی تھی ، جبکہ وہ نبی نہیں تھے ، اگر میری امت سے کوئی ہوا ، تو عمر ہوں گے ۔ “ ( صحیح البخاری : 3689 )
ایک روایت کے یہ الفاظ ہیں : لقد کان فیما قبلکم من الامم محدثون ، فان یکن فی امتی احد ، فانہ عمر ” پہلی امتوں میں ” محدث “ گزرے ہیں ، اگر میری امت میں کوئی ہوا ، تو عمر رضی اللہ عنہ ہوں گے ۔ “ ( صحیح بخاری : 3689 ورواہ مسلم : 2398 وغیرہ من حدیث عائشہ )
سیدہ عائشہ کی ایک روایت کے الفاظ ہیں : ما کان من نبی الا مرفی امتہ معلم او معلمان ، فان یکن فی امتی احد منھم فعمر بن الخطاب کوئی نبی ایسے نہیں گزرے ، جن کی امت میں ایک دو معلم نہ ہوئے ہوں ، اگر میری امت میں کوئی ہوا ، تو عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ ہوں گے ۔ “ ( السنۃ ابن ابی عاصم : 1298 وسندہ حسن ) اس کے راوی عبدالرحمن بن ابی الزناد موثق حسن الحدیث ہیں ، حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں : وھو ثقۃ عند الجمہور وتکلم فیہ بعضھم بما لا یقدح فیہ ” یہ جمہور کے نزدیک ثقہ ہیں ، بعض نے ان میں کلام کی ہے ، جو موجب قدح نہیں ۔ “ ( نتائج الافکار لابن حجر : 304 )یاد رہے کہ ” محدث “ ، ” مکلم “ اور ” معلم “ کا ایک ہی مطلب ہے ، اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اگر کوئی محدث و مکلم ار معلم اس امت میں ہوا ، تو عمر بن خطاب ہوں گے ، اس کا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اگر عمر نہ ہوئے تو کوئی بھی نہ ہو گا ۔ یعنی نبی تو درکنار محدث و مکلم اور ملہم بھی نہ ہوگا ۔
اسماعیل بن عبدالرحمن السدی ( حسن الحدیث ) کہتے ہیں : سالت انس بن مالک قلت : صلی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم علی ابنہ ابراھیم ؟ قال : لا ادری ، رحمۃ اللہ علی ابراھیم لو عاش کان صدیقا نبیا ” میں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بیٹے ابراہیم پر نماز جنازہ پڑھی تھی ؟ تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا ، میں نہیں جانتا ( پڑھی تھی یا نہیں پڑھی تھی ) ابراہیم پر اللہ کی رحمت ہو اگر وہ زندہ ہوتے تو سچے نبی ہوتے ۔ “ ( مسند الامام احمد : 280/3 ، 281 ، طبقات ابن سعد ، 140/1 وسندہ حسن )
اسماعیل کہتے ہیں کہ میں نے ابن ابی اوفی سے کہا : رایت ابراھیم ابن النبی صلی اللہ علیہ وسلم ؟ قال : مات صغیرا ، ولو قضی ان یکون بعد محمد صلی اللہ علیہ وسلم نبی عاش ابنہ ، ولکن لانبی بعدہ ” کیا آپ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بیٹے ابراہیم کو دیکھا ہے ؟ فرمایا وہ بچپن میں ہی فوت ہوگئے ، اگر اللہ تعالیٰ کا فیصلہ ہوتا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی ہو سکتا ہے ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صاحبزادے زندہ رہتے ، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں آسکتا ۔ “ ( صحیح بخاری : 6194 ، ابن ماجہ : 1510 ، المعجم الاوسط للطبرانی : 6638 ، تاریخ ابن عساکر : 135/3 )ان احادیث سے معلوم ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی پیدا نہیں ہو سکتا ، اس لئے آپ کا بیٹا ابراھیم زندہ نہ رہا ۔
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ لوگ روزِ قیامت شفاعت کبریٰ کے لئے جہاں دیگر انبیاءعلیہم السلام کے پاس جائیں گے ، وہاں عیسیٰ علیہ السلام کے پاس بھی جائیں گے اور کہیں گے ، ” اے عیسیٰ ( علیہ السلام ) اپنے رب کے ہاں ہمارے فیصلے کی سفارش کیجئے ، وہ فرمائیں گے کہ اس وقت میں آپ کے کام نہیں آ سکتا ، ” ولکن ائتوا محمداً صلی اللہ علیہ وسلم فانہ خاتم النبیین “ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جائیں ، وہ آخری نبی ہیں ۔ “ وہ آج موجود ہیں ، ان کے پہلے اور بعد کے گناہ معاف کر دئیے گئے ہیں ، عیسیٰ علیہ السلام فرمائیں گے ، بھلا آپ مجھے یہ بتائیں کہ اگر کسی برتن میں سامان رکھ کر مہر لگا دی گئی ہو ، کیا وہ مہر توڑے بغیر اس سامان تک رسائی ممکن ہے ؟ لوگ کہیں گے ، نہیں ، تو عیسیٰ علیہ السلام فرمائیں گے : ” فان محمدا صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبیین “ ” یقینا محمد صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی ہیں ۔ “ ( مسند الامام احمد : 248/3 وسندہ صحیح )سیدنا عیسیٰ علیہ السلام نے بڑی پیاری مثال دے کر بات سمجھائی ہے کہ جس طرح مہر توڑے بغیر سامان کا حصول ناممکن ہے ، اسی طرح کام کے لئے مہر والی ہستی کے پاس جانا ہوگا ۔ جو آخری نبی ہیں ۔ لوگ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کے کہنے کے مطابق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جا کر کہیں گے : یا محمد ، انت رسول اللہ وخاتم الانبیاء ” اے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ! آپ اللہ کے رسول اور آخری نبی ہیں ۔ “ ( صحیح بخاری : 7412 ، صحیح مسلم : 194 )
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد جو بھی مدعی نبوت ہو گا ، وہ مفتری اور دجال و کذاب ہوگا ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان گرامی ہے : ان بین یدی الساعۃ ثلاثین کذابا دجالا کلھم یزعم انہ نبی ” قیامت سے پہلے تیس کذاب دجال پیدا ہوں گے ، وہ سارے کے سارے نبوت کے دعویدار ہوں گے ۔ “ ( دلائل النبوۃ للبیہقی : 480/6 وسندہ حسن )نیز فرمایا : لا تقوم الساعۃ حتی یخرج ثلاثون کتابا دجالا کلھم یکذب علی اللہ وعلی رسولہ ” قیامت قائم نہیں ہو گی ، جب تک ( نامور ) تیس کذاب دجال پیدا نہیں ہوں گے ، وہ سارے کے سارے اللہ اور اس کے رسول پر جھوٹ باندھتے ہوں گے ۔ “ ( ابوداود : 4334 وسندہ حسن )
سیدنا عوف بن مالک اشجعی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ابیتم فو اللہ انی لانا الحاشر ، وانا العاقب وانا النبی المصطفی آمنتم او کذبتم ” ( اے یہودیو ! تم نے لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ ) کا انکار کیا ہے ، اللہ کی قسم ! میں حاشر ہوں ( یعنی میرے بعد حشر برپا ہو گا ) میں عاقب ہوں ( یعنی میرے بعد کوئی نبی نہیں آ سکتا ) میں نبی مصطفی ہوں خواہ تم ( مجھ پر ) ایمان لے آؤ یا ( میری ) تکذیب کر دو ۔ “ ( آپ ایمان لائیں یا نہ لائیں ہر صورت میں اللہ کا آخری نبی ہوں ) ( مسند الامام احمد : ج 6 ص 25 ح 24484 وسندہ حسن )
سیدنا سمرۃ بن جندب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : وانہ واللہ لا تقوم الساعۃ حتی یخرج ثلاثون کذابا آخرھم الاعور الدجال ” اللہ کی قسم ! اس وقت تک قیامت برپا نہیں ہو گی ، جب تک تیس ( نامور ) جھوٹے ( نبی ) پیدا نہیں ہوں گے ۔ ان میں آخری کانا دجال ہوگا ۔ “ ( مسند الامام احمد : 16/5 ، طبرانی : 6796 ، 7798 ، 6799 ، مستدرک حاکم : 329/1 ، 330وسندہ حسن ) س حدیث کو امام ابن خزیمہ ( 1397 ) امام ابن حبان ( 2856 ) نے ” صحیح “ اور امام حاکم نے بخاری و مسلم کی شرط پر ” صحیح “ کہا ہے ، حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے ان کی موافقت کی ہے ۔ اس حدیث کو ابوداود ( 1184 ) نسائی ( 1484 ) اور ترمذی ( 562 ) نے مختصرا اسی سند سے روایت کیا ہے ، امام ترمذی رحمہ اللہ نے اس کو ” حسن صحیح “ قرار دیا ہے ۔ اس کا راوی ثعلبہ بن عباد ” حسن الحدیث “ ہے ، امام ابن خزیمہ ، امام ابن حبان ، امام ترمذی اور امام حاکم نے اس کی حدیث کی ” تصحیح “ کر کے اس کی توثیق کی ہے ، لہٰذا ان کو ” مجہول “ کہنے والوں کا قول مردود ہے ۔ فافھم
Tuesday, July 13, 2010
مرزا قادیانی.... کی کذب بیانیاں
مولانا عبید اللہ لطیف ختم نبوت
مرزا قادیانی.... کی کذب بیانیاں
کچھ عرصہ قبل فیصل آباد ریلوے روڈ سے گزر رہا تھا کہ کیا دیکھتا ہوں تین باریش نوجوان ایک روشن خیال ( تاریک خیال ) قسم کے نوجوان سے بحث میں مصروف ہیں ان باریش نوجوانوں میں میرا ایک جاننے والا بھی تھا جو ایک دینی ادارے کا طالب علم بھی ہے ۔ میں اس نوجوان سے ملاقات کے لیے رکا تو ان کے درمیان زیربحث موضوع کی وجہ سے پتہ چلا کہ وہ نوجوان جو کلین شیو تھا اور انہیں روشن خیالی ( تاریک خیالی ) کا درس دینے کے ساتھ ساتھ بڑھ چڑھ کر جہاد اور مجاہدین کی مخالفت کر رہا تھا ۔ جو مذہب کے لحاظ سے قادیانی تھا ۔ کیونکہ ان کی بحث کا رخ جہاد سے ہٹ کر ختم نبوت کی طرف آگیا تھا ختم نبوت کے حوالے سے ہونے والی گفتگو من و عن تحریر کےے دیتا ہوں تا کہ دیگر لوگوں کو بھی پتہ چل سکے کہ کس طرح یہ قادیانی ہماری سادہ لوح عوام کو گمراہ کرنے میں مصروف ہیں ۔ اور ہمارے نوجوان اپنے ہی دین کے بارے میں لاعلم ہونے کی وجہ سے کس طرح ان کی شر انگیزیوں میں پھنس کر اپنا ایمان تباہ کر بیٹھتے ہیں ۔
قادیانی : جبرائیل علیہ السلام کی ذمہ داری کیا ہے ؟
مسلم : وحی لانا ۔
قادیانی : سورۃ القدر کی آخری آیت پڑھتے ہوئے کہنے لگا کہ اس آیت میں ” تنزل “ آیا ہے جو فعل مضارع کا صیغہ ہے اس سے پتہ چلتا ہے کہ جبرائیل علیہ السلام قیامت تک نازل ہوتے رہیں گے کیونکہ اسی آیت میں ” والروح “ کا لفظ خاص جبرائیل علیہ السلام کے لیے بولا گیا ہے ۔ جب کہ آپ کے بقول جبرائیل علیہ السلام کی ڈیوٹی ہی وحی لانا ہے تو آپ کو کیا اعتراض ؟ وہ جس پر چاہیں وحی لے آئیں ۔
یہ دلیل سن کر وہ طالب علم لاجواب ہو گیا کیونکہ وہ نوجوان اس قادیانی سے بات کرتے ہوئے بنیادی غلطی کر گیا تھا کہ جبرائیل علیہ السلام کی ڈیوٹی وحی لانا ہے ۔ جبکہ جبرائیل علیہ السلام کی ڈیوٹی نہ صرف وحی لانا ہے بلکہ اللہ تعالیٰ جب چاہے جس وقت چاہے جو مرضی ڈیوٹی سونپ دے جس کی واضح دلیل یہ ہے کہ جبرائیل علیہ السلام نے بدر اور احد کے میدان میں وحی سے ہٹ کر فرشتوں کی قیادت کرتے ہوئے کفار سے قتال کیا ۔ اسی طرح طائف کی وادی میں نبی کریم علیہ السلام کی مدد کے لیے آئے اور اسی طرح جب جدالانبیاءابراہیم علیہ السلام کو جب آگ کے الاؤ میں پھینکا جانے لگا تو تب بھی مدد کے لیے آئے ۔
یہ ایک واقعہ تو میرے سامنے ہوا پتہ نہیں روزانہ ایسے کتنے واقعات رونما ہوتے ہیں جبکہ موجودہ حکومت بھی مکمل طور پر قادیانی نواز ہے اور ہر معاملہ میں قادیانیوں کو سہولتیں فراہم کر رہی ہے ۔ یہاں تک کہ پاسپورٹ سے مذہب کا خانہ ختم کر کے ان کو مکہ اور مدینہ میں شر پسندی کا کھلا موقع فراہم کیا گیا ہے جب کہ ان کو 7 ستمبر 1974 کو اقلیت قرار دیا گیا تھا ۔
اصل مسئلہ یہ ہے کہ آج کل کے مسلم نوجوانوں بزرگوں اور عورتوں کو اپنے دین کے متعلق ہی معلومات برائے نام ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ علمی میدان میں دلائل دیتے ہوئے ان سے مات کھا جاتے ہیں ۔ اب میں مرزا قادیانی کی اصل کتابوں سے چند دلائل پیش کرنے لگا ہوں تا کہ لوگوں کو پتہ چل سکے کہ ان کو مرتد کیوں قرار دیا گیا ہے ویسے بھی سید آخرالزماں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ میرے بعد تیس 30 کذاب آئیں گے جو جھوٹی نبوت کا دعویٰ کریں گے اس حدیث کی رو سے اور تاریخ اسلام سے پتہ چلتا ہے کہ نبی آخر الزماں کے دور میں ہی مسیلمہ کذاب نے نبوت کا دعویٰ کر دیا تھا اور مرزا قادیانی بھی اسی کا پیروکار ہے اور اپنے آپ کو واضح طور پر نبی کہتا ہے ۔ اور ” کشتی نوح “ میں یوں رقمطراز ہے ۔
” خدا ایک اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کا نبی ہے اور وہ خاتم الانبیاءہے اور سب سے بڑھ کر ہے اب بعد اس کے کوئی نبی نہیں مگر وہی جس پر بروزی طور پر محمدیت کی چادر پہنائی گئی ہو کیونکہ خادم اپنے مخدوم سے جدا نہیں اور نہ شاخ اپنی بیخ سے جدا ہے پس جو کامل طور پر مخدوم میں فنا ہو کر نبی کا لقب پاتا ہے وہ ختم نبوت کا خلل انداز نہیں جیسا کہ تم جب آئینہ میں اپنی شکل دیکھو تو تم دو نہیں ہو سکتے بلکہ ایک ہی ہو صرف ظل اور اصل کا فرق ہے ۔ سو ایسا ہی اللہ نے مسیح موعود میں چاہا ۔ یہی بھید ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں مسیح موعود میری قبر میں دفن ہوگا ۔ یعنی وہ میں ہی ہوں ۔ ( کشتی نوح صفحہ24 )
اس تحریر میں پہلے تو مرزا صاحب واضح طور پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خاتم الانبیاءہونے کا اقرار کرتے ہیں لیکن بعد میں آئینہ کی مثال دے کر خود کو ہی محمد صلی اللہ علیہ وسلم ثابت کرنے کی ناکام کوشش کر رہے ہیں اور برملا طور پر کہہ رہے ہیں کہ جس پر بروزی طور پر محمدیت کی چادر پہنائی گئی ہو وہی نبی ہے ۔ جس بات سے مرزا صاحب کذب بیانی اور ہیرا پھیری سے کام لے رہے ہیں ان کے جھوٹ کا پول فقط اسی بات سے کھل جاتا ہے کہ اس تحریر کے آخر میں فرمان نبی کا حوالہ دے کر کہتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مسیح موعود میری قبر میں دفن ہوگا اور پھر کہتا ہے کہ وہ مسیح موعود میں ہی ہوں ۔ اگر اب مرزا صاحب اپنے دعوے میں سچے تھے تو ان کی قبر مدینہ منورہ میں ہونی چاہئیے تھی نہ کہ قادیان میں اور ویسے بھی یہ دستور شروع سے چلا آ رہا ہے کہ نبی جہاں فوت ہوتا ہے اسے وہیں دفن کیا جاتا ہے کہ حقیقت میں مرزا نبی تھا تو یہ لیٹرین میں مرا اسے وہیں دفن کرنا چاہئیے تھا ۔ کشتی نوح کے صفحہ نمبر 22 پر مرزا کچھ یوں رقمطراز ہے کہ
” اب محمدی سلسلہ موسوی سلسلہ کے قائمقام ہے مگر شان میں ہزار ہا درجہ بڑھ کر مثیل موسیٰ موسیٰ سے بڑھ کر اور مثیل ابن مریم ابن مریم سے بڑھ کر اور وہ مسیح موعود نہ صرف مدت کے لحاظ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد چودھویں صدی میں ظاہر ہوا جیسا کہ مسیح ابن مریم موسیٰ کے بعد چودھویں صدی میں ظاہر ہوا تھا بلکہ وہ ایسے وقت میں آیا تھا جب کہ مسلمانوں کا حال وہی تھا جیسا کہ مسیح ابن مریم کے وقت یہودیوں کا حال تھا سو وہ میں ہی ہوں ۔ “ ( کشتی نوح صفحہ 22 )
اس تحریر میں مرزا صاحب اپنے آپ کو عیسیٰ علیہ السلام سے افضل ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور ساتھ ساتھ اپنے آپ کو مثیل ابن مریم ثابت کر رہے ہیں ایسا شخص جو کسی ایک نبی کی گستاخی کرے وہ تو واجب القتل ہے ۔ اور پاکستان کے اندر بھی گستاخ رسول کی سزا موت ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ و یورپ قادیانیوں کو اقلیت قرار دینے اور شاتم رسول کو سزائے موت دینے والے قانون کو ختم کروانے کے درپے ہیں اور ہمارے قادیانی نواز حکمران بھی ایسے بیانات دیتے رہتے ہیں جن سے ان کی حوصلہ افزائی ہو ۔ پاکستان میں شاتم رسول کو موت کی سزا والے قانون کی وجہ سے سب سے پہلے قادیانی اس کا شکار ہوتے ہیں کیونکہ مرزا صاحب نے نہ صرف جھوٹی نبوت کا دعویٰ کیا بلکہ جگہ جگہ پر انبیاءکی توہین بھی کی ہے ۔ اگر مرزا کے دماغی توازن کا جائزہ لینا ہو تو اسی ایک تحریر سے لیا جا سکتا ہے جس میں خود ہی مریم اور پھر خود ہی عیسیٰ بن جاتا ہے ۔ لہٰذا کشتی نوح میں لکھتا ہے کہ :
” اس نے براہین احمدیہ کے تیسرے حصہ میں میرا نام مریم رکھا پھر جیسا کہ براھین احمدیہ سے ظاہر ہے دو برس تک صفت مریمیت میں میں نے پرورش پائی اور پردے میں نشوونما پاتا رہا ۔ پھر جب اس پر دو برس گزر گئے تو جیسا کہ براھین احمدیہ کے حصہ چہارم صفحہ 496 میں درج ہے مریم کی طرح عیسیٰ کی روح مجھ میں نفخ کی گئی اور استعارہ کے رنگ میں مجھے حاملہ ٹھہرایا گیا اور آخر کئی مہینہ کے بعد جو دس مہینہ سے زیادہ نہیں بذریعہ اس الہام کے جو سب سے آخر براھین احمدیہ کے حصہ چہارم صفحہ 556 میں درج ہے مجھے مریم سے عیسیٰ بنایا گیا پس اس طور سے میں ابن مریم ٹھہرا ۔ “ ( کشتی نوح صفحہ 69-68 )
کیا ایسا شخص جو پہلے اپنے آپ کو مثیل ابن مریم کہے پھر خود ہی مریم بن جائے اور حاملہ ہو کر خود ہی ابن مریم بن بیٹھے اور کبھی اپنے آپ کو مسیح موعود کہلائے تو کبھی اپنے آپ کو محمد صلی اللہ علیہ وسلم ثابت کرنے کی کوشش کرے تو کبھی اپنے آپ کو عیسیٰ سے افضل قرار دے ۔ مرزائی دوستوں کو بھی سوچنا ہوگا کہ کیا ایسا مخبوط الحواس شخص نبی کہلانے کا حق دار ہے ۔ کیا ایسا شخص قابل اتباع ہو سکتا ہے ، یقینا نہیں ! تو پھر آئیے توبہ کیجےے اور کلمہ توحید و رسالت کا اقرار کر کے دائرہ اسلام میں داخل ہو جائیے اسی میں فلاح اور کامیابی ہے ۔
مرزا قادیانی ” کشتی نوح “ میں ایک اور جگہ پر یوں رقمطراز ہے کہ :
” مجھے قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ اگر مسیح ابن مریم میرے زمانہ میں ہوتا تو وہ کام جو میں کر سکتا ہوں وہ ہر گز نہ کر سکتا اور وہ نشان جو مجھ سے ظاہر ہو رہے ہیں وہ ہر گز نہ دکھلا سکتا اور خدا کا فضل اپنے سے زیادہ مجھ پر پاتا جب کہ میں ایسا ہوں تو اب سوچو کہ کیا مرتبہ ہے اس پاک رسول کا جس کی غلامی کی طرف میں منسوب کیا گیا ۔ ذالک فضل اللہ یوتیہ من یشاءاس جگہ کوئی حسد اور رشک پیش نہیں کیا جاتا خدا جو چاہے کرے جو اس کے ارادہ کی مخالفت کرتا ہے وہ صرف اپنے مقاصد میں نامراد ہی نہیں بلکہ مرکز جہنم کی راہ لیتا ہے ۔ ہلاک ہو گئے وہ جنہوں نے عاجز مخلوق کو خدا بنایا ہلاک ہو گئے وہ جنہوں نے ایک برگزیدہ رسول کو قبول نہ کیا مبارک وہ جس نے مجھے پہچانا میں خدا کی سب راہوں میں سے آخری راہ ہوں اور میں اسکے سب نوروں میں سے آخری نور ہوں بدقسمت ہے وہ جو مجھے چھوڑتا ہے کیونکہ میرے بغیر سب تاریکی ہے ۔ ( کشتی نوح ، صفحہ 81 )
اس تحریر میں بھی سراسر عیسیٰ علیہ السلام کی توہین کی گئی اور اپنے آپ کو عیسیٰ علیہ السلام سے افضل قرار دے رہا ہے ۔ جہاں تک مرزا قادیانی کے نشانوں والی بات ہے واقعی وہ اس کے علاوہ کوئی اور نہیں دکھا سکتا ۔ عیسیٰ علیہ السلام تو پھر بھی جلیل القدر پیغمبر ہیں ۔ ایسے نشان انتہائی حقیر اور معمولی سے عقل والا انسان بھی نہیں دکھا سکتا ۔ اور جہاں تک مرزا قادیانی کے اس دعوے کا تعلق ہے کہ اس کے بغیر تاریکی ہے تو یہ ایسی ہی بات ہے کہ نام ہو نور بھری اور رنگ ہو توے کی سیاہی سے بھی کالا ۔
کچھ لوگ یہ باتیں بھی کرتے ہیں کہ مرزا قادیانی اہلحدیث تھا جبکہ وہ خود کشتی نوح میں لکھتا ہے کہ :
” یہاں تک کہ بیت المقدس کے صدھا عالم فاضل جو اکثر اہلحدیث تھے انہوں نے حضرت عیسیٰ پر تکفیر کی مہریں لگا دیں یہی معاملہ مجھ سے ہوا اور پھر جیسا کہ اس تکفیر کے بعد جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی نسبت کی گئی تھی ان کو بہت ستایا گیا سخت سے سخت گالیاں دی گئی تھیں ، ہجو اور بدگوئی میں کتابیں لکھی تھیں ، یہی صورت اس جگہ پیش آئی گویا اٹھارہ سو برس بعد وہی عیسیٰ پھر پیدا ہو گیا اور وہی یہودی پھر پیدا ہوگئے ۔ “ ( کشتی نوح ، صفحہ : 73 )
اس تحریر سے اس کا بغض اور کینہ ، اہلحدیثوں کے ساتھ صاف نظر آ رہا ہے ۔ جبکہ فقہ احمدیہ میں لکھتا ہے کہ ” اگر کوئی مسئلہ قرآن و سنت میں نہ ملے تو فقہ حنفی پر عمل کر لیں کیونکہ اس فرقہ کی کثرت خدا کے ارادہ پر دلالت کرتی ہے ۔ “ ( فقہ احمدیہ ، صفحہ 13 )
صفحہ 15 پر لکھا ہے کہ :
” فقہ احمدیہ کے وہی ماخوذ ہیں ، جو فقہ حنفی کے ہیں ۔ “
اب اہلحدیثوں پر الزام دینے والوں کو خود ہی اپنے گریبانوں میں جھانکنا چاہئیے ۔
آپ ہی اپنی اداؤں پہ ذرا غور کیجےے
ہم عرض کریں گے تو شکایت ہوگی
مرزا قادیانی.... کی کذب بیانیاں
کچھ عرصہ قبل فیصل آباد ریلوے روڈ سے گزر رہا تھا کہ کیا دیکھتا ہوں تین باریش نوجوان ایک روشن خیال ( تاریک خیال ) قسم کے نوجوان سے بحث میں مصروف ہیں ان باریش نوجوانوں میں میرا ایک جاننے والا بھی تھا جو ایک دینی ادارے کا طالب علم بھی ہے ۔ میں اس نوجوان سے ملاقات کے لیے رکا تو ان کے درمیان زیربحث موضوع کی وجہ سے پتہ چلا کہ وہ نوجوان جو کلین شیو تھا اور انہیں روشن خیالی ( تاریک خیالی ) کا درس دینے کے ساتھ ساتھ بڑھ چڑھ کر جہاد اور مجاہدین کی مخالفت کر رہا تھا ۔ جو مذہب کے لحاظ سے قادیانی تھا ۔ کیونکہ ان کی بحث کا رخ جہاد سے ہٹ کر ختم نبوت کی طرف آگیا تھا ختم نبوت کے حوالے سے ہونے والی گفتگو من و عن تحریر کےے دیتا ہوں تا کہ دیگر لوگوں کو بھی پتہ چل سکے کہ کس طرح یہ قادیانی ہماری سادہ لوح عوام کو گمراہ کرنے میں مصروف ہیں ۔ اور ہمارے نوجوان اپنے ہی دین کے بارے میں لاعلم ہونے کی وجہ سے کس طرح ان کی شر انگیزیوں میں پھنس کر اپنا ایمان تباہ کر بیٹھتے ہیں ۔
قادیانی : جبرائیل علیہ السلام کی ذمہ داری کیا ہے ؟
مسلم : وحی لانا ۔
قادیانی : سورۃ القدر کی آخری آیت پڑھتے ہوئے کہنے لگا کہ اس آیت میں ” تنزل “ آیا ہے جو فعل مضارع کا صیغہ ہے اس سے پتہ چلتا ہے کہ جبرائیل علیہ السلام قیامت تک نازل ہوتے رہیں گے کیونکہ اسی آیت میں ” والروح “ کا لفظ خاص جبرائیل علیہ السلام کے لیے بولا گیا ہے ۔ جب کہ آپ کے بقول جبرائیل علیہ السلام کی ڈیوٹی ہی وحی لانا ہے تو آپ کو کیا اعتراض ؟ وہ جس پر چاہیں وحی لے آئیں ۔
یہ دلیل سن کر وہ طالب علم لاجواب ہو گیا کیونکہ وہ نوجوان اس قادیانی سے بات کرتے ہوئے بنیادی غلطی کر گیا تھا کہ جبرائیل علیہ السلام کی ڈیوٹی وحی لانا ہے ۔ جبکہ جبرائیل علیہ السلام کی ڈیوٹی نہ صرف وحی لانا ہے بلکہ اللہ تعالیٰ جب چاہے جس وقت چاہے جو مرضی ڈیوٹی سونپ دے جس کی واضح دلیل یہ ہے کہ جبرائیل علیہ السلام نے بدر اور احد کے میدان میں وحی سے ہٹ کر فرشتوں کی قیادت کرتے ہوئے کفار سے قتال کیا ۔ اسی طرح طائف کی وادی میں نبی کریم علیہ السلام کی مدد کے لیے آئے اور اسی طرح جب جدالانبیاءابراہیم علیہ السلام کو جب آگ کے الاؤ میں پھینکا جانے لگا تو تب بھی مدد کے لیے آئے ۔
یہ ایک واقعہ تو میرے سامنے ہوا پتہ نہیں روزانہ ایسے کتنے واقعات رونما ہوتے ہیں جبکہ موجودہ حکومت بھی مکمل طور پر قادیانی نواز ہے اور ہر معاملہ میں قادیانیوں کو سہولتیں فراہم کر رہی ہے ۔ یہاں تک کہ پاسپورٹ سے مذہب کا خانہ ختم کر کے ان کو مکہ اور مدینہ میں شر پسندی کا کھلا موقع فراہم کیا گیا ہے جب کہ ان کو 7 ستمبر 1974 کو اقلیت قرار دیا گیا تھا ۔
اصل مسئلہ یہ ہے کہ آج کل کے مسلم نوجوانوں بزرگوں اور عورتوں کو اپنے دین کے متعلق ہی معلومات برائے نام ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ علمی میدان میں دلائل دیتے ہوئے ان سے مات کھا جاتے ہیں ۔ اب میں مرزا قادیانی کی اصل کتابوں سے چند دلائل پیش کرنے لگا ہوں تا کہ لوگوں کو پتہ چل سکے کہ ان کو مرتد کیوں قرار دیا گیا ہے ویسے بھی سید آخرالزماں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ میرے بعد تیس 30 کذاب آئیں گے جو جھوٹی نبوت کا دعویٰ کریں گے اس حدیث کی رو سے اور تاریخ اسلام سے پتہ چلتا ہے کہ نبی آخر الزماں کے دور میں ہی مسیلمہ کذاب نے نبوت کا دعویٰ کر دیا تھا اور مرزا قادیانی بھی اسی کا پیروکار ہے اور اپنے آپ کو واضح طور پر نبی کہتا ہے ۔ اور ” کشتی نوح “ میں یوں رقمطراز ہے ۔
” خدا ایک اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کا نبی ہے اور وہ خاتم الانبیاءہے اور سب سے بڑھ کر ہے اب بعد اس کے کوئی نبی نہیں مگر وہی جس پر بروزی طور پر محمدیت کی چادر پہنائی گئی ہو کیونکہ خادم اپنے مخدوم سے جدا نہیں اور نہ شاخ اپنی بیخ سے جدا ہے پس جو کامل طور پر مخدوم میں فنا ہو کر نبی کا لقب پاتا ہے وہ ختم نبوت کا خلل انداز نہیں جیسا کہ تم جب آئینہ میں اپنی شکل دیکھو تو تم دو نہیں ہو سکتے بلکہ ایک ہی ہو صرف ظل اور اصل کا فرق ہے ۔ سو ایسا ہی اللہ نے مسیح موعود میں چاہا ۔ یہی بھید ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں مسیح موعود میری قبر میں دفن ہوگا ۔ یعنی وہ میں ہی ہوں ۔ ( کشتی نوح صفحہ24 )
اس تحریر میں پہلے تو مرزا صاحب واضح طور پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خاتم الانبیاءہونے کا اقرار کرتے ہیں لیکن بعد میں آئینہ کی مثال دے کر خود کو ہی محمد صلی اللہ علیہ وسلم ثابت کرنے کی ناکام کوشش کر رہے ہیں اور برملا طور پر کہہ رہے ہیں کہ جس پر بروزی طور پر محمدیت کی چادر پہنائی گئی ہو وہی نبی ہے ۔ جس بات سے مرزا صاحب کذب بیانی اور ہیرا پھیری سے کام لے رہے ہیں ان کے جھوٹ کا پول فقط اسی بات سے کھل جاتا ہے کہ اس تحریر کے آخر میں فرمان نبی کا حوالہ دے کر کہتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مسیح موعود میری قبر میں دفن ہوگا اور پھر کہتا ہے کہ وہ مسیح موعود میں ہی ہوں ۔ اگر اب مرزا صاحب اپنے دعوے میں سچے تھے تو ان کی قبر مدینہ منورہ میں ہونی چاہئیے تھی نہ کہ قادیان میں اور ویسے بھی یہ دستور شروع سے چلا آ رہا ہے کہ نبی جہاں فوت ہوتا ہے اسے وہیں دفن کیا جاتا ہے کہ حقیقت میں مرزا نبی تھا تو یہ لیٹرین میں مرا اسے وہیں دفن کرنا چاہئیے تھا ۔ کشتی نوح کے صفحہ نمبر 22 پر مرزا کچھ یوں رقمطراز ہے کہ
” اب محمدی سلسلہ موسوی سلسلہ کے قائمقام ہے مگر شان میں ہزار ہا درجہ بڑھ کر مثیل موسیٰ موسیٰ سے بڑھ کر اور مثیل ابن مریم ابن مریم سے بڑھ کر اور وہ مسیح موعود نہ صرف مدت کے لحاظ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد چودھویں صدی میں ظاہر ہوا جیسا کہ مسیح ابن مریم موسیٰ کے بعد چودھویں صدی میں ظاہر ہوا تھا بلکہ وہ ایسے وقت میں آیا تھا جب کہ مسلمانوں کا حال وہی تھا جیسا کہ مسیح ابن مریم کے وقت یہودیوں کا حال تھا سو وہ میں ہی ہوں ۔ “ ( کشتی نوح صفحہ 22 )
اس تحریر میں مرزا صاحب اپنے آپ کو عیسیٰ علیہ السلام سے افضل ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور ساتھ ساتھ اپنے آپ کو مثیل ابن مریم ثابت کر رہے ہیں ایسا شخص جو کسی ایک نبی کی گستاخی کرے وہ تو واجب القتل ہے ۔ اور پاکستان کے اندر بھی گستاخ رسول کی سزا موت ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ و یورپ قادیانیوں کو اقلیت قرار دینے اور شاتم رسول کو سزائے موت دینے والے قانون کو ختم کروانے کے درپے ہیں اور ہمارے قادیانی نواز حکمران بھی ایسے بیانات دیتے رہتے ہیں جن سے ان کی حوصلہ افزائی ہو ۔ پاکستان میں شاتم رسول کو موت کی سزا والے قانون کی وجہ سے سب سے پہلے قادیانی اس کا شکار ہوتے ہیں کیونکہ مرزا صاحب نے نہ صرف جھوٹی نبوت کا دعویٰ کیا بلکہ جگہ جگہ پر انبیاءکی توہین بھی کی ہے ۔ اگر مرزا کے دماغی توازن کا جائزہ لینا ہو تو اسی ایک تحریر سے لیا جا سکتا ہے جس میں خود ہی مریم اور پھر خود ہی عیسیٰ بن جاتا ہے ۔ لہٰذا کشتی نوح میں لکھتا ہے کہ :
” اس نے براہین احمدیہ کے تیسرے حصہ میں میرا نام مریم رکھا پھر جیسا کہ براھین احمدیہ سے ظاہر ہے دو برس تک صفت مریمیت میں میں نے پرورش پائی اور پردے میں نشوونما پاتا رہا ۔ پھر جب اس پر دو برس گزر گئے تو جیسا کہ براھین احمدیہ کے حصہ چہارم صفحہ 496 میں درج ہے مریم کی طرح عیسیٰ کی روح مجھ میں نفخ کی گئی اور استعارہ کے رنگ میں مجھے حاملہ ٹھہرایا گیا اور آخر کئی مہینہ کے بعد جو دس مہینہ سے زیادہ نہیں بذریعہ اس الہام کے جو سب سے آخر براھین احمدیہ کے حصہ چہارم صفحہ 556 میں درج ہے مجھے مریم سے عیسیٰ بنایا گیا پس اس طور سے میں ابن مریم ٹھہرا ۔ “ ( کشتی نوح صفحہ 69-68 )
کیا ایسا شخص جو پہلے اپنے آپ کو مثیل ابن مریم کہے پھر خود ہی مریم بن جائے اور حاملہ ہو کر خود ہی ابن مریم بن بیٹھے اور کبھی اپنے آپ کو مسیح موعود کہلائے تو کبھی اپنے آپ کو محمد صلی اللہ علیہ وسلم ثابت کرنے کی کوشش کرے تو کبھی اپنے آپ کو عیسیٰ سے افضل قرار دے ۔ مرزائی دوستوں کو بھی سوچنا ہوگا کہ کیا ایسا مخبوط الحواس شخص نبی کہلانے کا حق دار ہے ۔ کیا ایسا شخص قابل اتباع ہو سکتا ہے ، یقینا نہیں ! تو پھر آئیے توبہ کیجےے اور کلمہ توحید و رسالت کا اقرار کر کے دائرہ اسلام میں داخل ہو جائیے اسی میں فلاح اور کامیابی ہے ۔
مرزا قادیانی ” کشتی نوح “ میں ایک اور جگہ پر یوں رقمطراز ہے کہ :
” مجھے قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ اگر مسیح ابن مریم میرے زمانہ میں ہوتا تو وہ کام جو میں کر سکتا ہوں وہ ہر گز نہ کر سکتا اور وہ نشان جو مجھ سے ظاہر ہو رہے ہیں وہ ہر گز نہ دکھلا سکتا اور خدا کا فضل اپنے سے زیادہ مجھ پر پاتا جب کہ میں ایسا ہوں تو اب سوچو کہ کیا مرتبہ ہے اس پاک رسول کا جس کی غلامی کی طرف میں منسوب کیا گیا ۔ ذالک فضل اللہ یوتیہ من یشاءاس جگہ کوئی حسد اور رشک پیش نہیں کیا جاتا خدا جو چاہے کرے جو اس کے ارادہ کی مخالفت کرتا ہے وہ صرف اپنے مقاصد میں نامراد ہی نہیں بلکہ مرکز جہنم کی راہ لیتا ہے ۔ ہلاک ہو گئے وہ جنہوں نے عاجز مخلوق کو خدا بنایا ہلاک ہو گئے وہ جنہوں نے ایک برگزیدہ رسول کو قبول نہ کیا مبارک وہ جس نے مجھے پہچانا میں خدا کی سب راہوں میں سے آخری راہ ہوں اور میں اسکے سب نوروں میں سے آخری نور ہوں بدقسمت ہے وہ جو مجھے چھوڑتا ہے کیونکہ میرے بغیر سب تاریکی ہے ۔ ( کشتی نوح ، صفحہ 81 )
اس تحریر میں بھی سراسر عیسیٰ علیہ السلام کی توہین کی گئی اور اپنے آپ کو عیسیٰ علیہ السلام سے افضل قرار دے رہا ہے ۔ جہاں تک مرزا قادیانی کے نشانوں والی بات ہے واقعی وہ اس کے علاوہ کوئی اور نہیں دکھا سکتا ۔ عیسیٰ علیہ السلام تو پھر بھی جلیل القدر پیغمبر ہیں ۔ ایسے نشان انتہائی حقیر اور معمولی سے عقل والا انسان بھی نہیں دکھا سکتا ۔ اور جہاں تک مرزا قادیانی کے اس دعوے کا تعلق ہے کہ اس کے بغیر تاریکی ہے تو یہ ایسی ہی بات ہے کہ نام ہو نور بھری اور رنگ ہو توے کی سیاہی سے بھی کالا ۔
کچھ لوگ یہ باتیں بھی کرتے ہیں کہ مرزا قادیانی اہلحدیث تھا جبکہ وہ خود کشتی نوح میں لکھتا ہے کہ :
” یہاں تک کہ بیت المقدس کے صدھا عالم فاضل جو اکثر اہلحدیث تھے انہوں نے حضرت عیسیٰ پر تکفیر کی مہریں لگا دیں یہی معاملہ مجھ سے ہوا اور پھر جیسا کہ اس تکفیر کے بعد جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی نسبت کی گئی تھی ان کو بہت ستایا گیا سخت سے سخت گالیاں دی گئی تھیں ، ہجو اور بدگوئی میں کتابیں لکھی تھیں ، یہی صورت اس جگہ پیش آئی گویا اٹھارہ سو برس بعد وہی عیسیٰ پھر پیدا ہو گیا اور وہی یہودی پھر پیدا ہوگئے ۔ “ ( کشتی نوح ، صفحہ : 73 )
اس تحریر سے اس کا بغض اور کینہ ، اہلحدیثوں کے ساتھ صاف نظر آ رہا ہے ۔ جبکہ فقہ احمدیہ میں لکھتا ہے کہ ” اگر کوئی مسئلہ قرآن و سنت میں نہ ملے تو فقہ حنفی پر عمل کر لیں کیونکہ اس فرقہ کی کثرت خدا کے ارادہ پر دلالت کرتی ہے ۔ “ ( فقہ احمدیہ ، صفحہ 13 )
صفحہ 15 پر لکھا ہے کہ :
” فقہ احمدیہ کے وہی ماخوذ ہیں ، جو فقہ حنفی کے ہیں ۔ “
اب اہلحدیثوں پر الزام دینے والوں کو خود ہی اپنے گریبانوں میں جھانکنا چاہئیے ۔
آپ ہی اپنی اداؤں پہ ذرا غور کیجےے
ہم عرض کریں گے تو شکایت ہوگی
Subscribe to:
Posts (Atom)